وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی
شاید اب ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی
گھبرا رہا ہوں کیوں یہ غم ناروا سے اب
کیا مجھ میں غم کے سہنے کی طاقت نہیں رہی
تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
تسکین دل کی اب کوئی صورت نہیں رہی
جینے کو جی رہے ہیں تمہارے بغیر بھی
اس طرح جیسے جینے کی حسرت نہیں رہی
شاید کوئی حسین ادھر سے گزر گیا
وہ درد دل کی پہلی سی حالت نہیں رہی
جاگے ہو رات محفل اغیار میں ضرور
آنکھوں میں اب وہ کفر کی ظلمت نہیں رہی
جب کر دیا خزاں نے وہ رنگیں چمن تباہ
وہ حسن اب کہاں وہ ملاحت نہیں رہی
زاہد میں ہے نہ زہد نہ رندوں میں مے کشی
پھولوں میں حسن غنچوں میں رنگت نہیں رہی
ہاں اے حیاتؔ ہم نے زمانے کے دکھ سہے
پھر بھی ہمیں کسی سے شکایت نہیں رہی
حیات امروہوی
Post a Comment